باغ الفت میں گل جو خود رو ہے
خون بلبل کا رنگ ہے بو ہے
عاشق جاں فدائے ابرو ہے
جو مہ عید سر بہ زانو ہے
فتنۂ حشر زلف عمر دراز
پر بلائے سیاہ گیسو ہے
تیری ابرو ہے تیغ اے سفاک
جوہر تیغ چین ابرو ہے
حسن ان کا اگر ہے سنگیں دل
عشق اپنا بھی سخت بازو ہے
لیں نہ شور نشور سے کروٹ
وہ یہاں خواب چار پہلو ہے
تول لے شعر کو مرے حاسد
پاس اگر نظم کی ترازو ہے
کیوں نہ وہ چشم شوق میں کھٹکے
اے پری رو کمر تری مو ہے
اس کا عاشق ہوا ہوں جس کی وقارؔ
چشم آہو نگاہ آہو ہے

غزل
باغ الفت میں گل جو خود رو ہے
کشن کمار وقار