EN हिंदी
باغ جہاں کے سادہ جمالوں سے عشق ہے | شیح شیری
bagh-e-jahan ke sada jamalon se ishq hai

غزل

باغ جہاں کے سادہ جمالوں سے عشق ہے

خورشید الاسلام

;

باغ جہاں کے سادہ جمالوں سے عشق ہے
سبزے سے گل سے سرو سے لالوں سے عشق ہے

ہاں خار و خس سے دل کو علاقہ ہے پاس کا
ہاں اس چمن کے تازہ نہالوں سے عشق ہے

سادہ سی گفتگو کے خم و پیچ ہیں عزیز
خاموشیوں کے گرم مقالوں سے عشق ہے

جو با ہنر ہیں ان کے قدم چومتے ہیں ہم
جو بے ہنر ہیں ان کے کمالوں سے عشق ہے

بوڑھوں کے پارہ پارہ عزائم کا ہے ملال
بچوں کے تازہ تازہ سوالوں سے عشق ہے

ہر بے نوا فقیر کو دیتے ہیں خون دل
ہر خوش نوا فقیر کے نالوں سے عشق ہے

سارے جہاں کے تلخ‌‌ نواؤں سے ہے نیاز
سارے جہاں کی شیریں مقالوں سے عشق ہے

یا کفر و دیں کے جاننے والوں سے کیا غرض
یاں کفر و دیں کے ماننے والوں سے عشق ہے