بادباں کو گلہ ہواؤں سے
اور مجھ کو ہے ناخداؤں سے
دشمنوں سے بھی اب نہیں لڑتا
پہلے لڑتا تھا میں ہواؤں سے
گاؤں میں لگ رہا ہے پھر میلا
بچے بچھڑیں گے کتنے ماؤں سے
لوگ محنت کے بیچ بوئیں گے
جب بھی فرصت ملی دعاؤں سے
حبس سے بجھ گیا دیا گھر کا
میں بچاتا رہا ہواؤں سے
میرے کھیتوں کو اس دفعہ عارفؔ
کتنی امید تھی گھٹاؤں سے
غزل
بادباں کو گلہ ہواؤں سے
عارف شفیق