بادلوں کے بیچ تھا میں بے سر و ساماں نہ تھا
تشنگی کا زہر پی لینا کوئی آساں نہ تھا
کیا قیامت خیز تھا دریا میں موجوں کا ہجوم
ساحلوں تک آتے آتے پھر کہیں طوفاں نہ تھا
جانے کتنی دور اس کی لہر مجھ کو لے گئی
میں سمجھتا تھا کہ وہ دریائے بے پایاں نہ تھا
ہر طرف پت جھڑ کی آوازوں کی چادر تن گئی
دشت میں میری صدا کا جسم بھی عریاں نہ تھا
اس کے رنگ و صوت کے جگنو تھے دامن میں علیمؔ
کھو کے سب کچھ آنے والا بھی تہی داماں نہ تھا
غزل
بادلوں کے بیچ تھا میں بے سر و ساماں نہ تھا
علیم اللہ حالی