بادل ہے اور پھول کھلے ہیں سبھی طرف
کہتا ہے دل کہ آج نکل جا کسی طرف
تیور بہت خراب تھے سنتے ہیں کل ترے
اچھا ہوا کہ ہم نے نہ دیکھا تری طرف
جب بھی ملے ہم ان سے انہوں نے یہی کہا
بس آج آنے والے تھے ہم آپ کی طرف
اے دل یہ دھڑکنیں تری معمول کی نہیں
لگتا ہے آ رہا ہے وہ فتنہ اسی طرف
خوش تھا کہ چار نیکیاں ہیں جمع اس کے پاس
نکلے گناہ بیسیوں الٹا مری طرف
باصرؔ عدو سے ہم تو یونہی بد گماں رہے
تھا ان کا التفات کسی اور ہی طرف
غزل
بادل ہے اور پھول کھلے ہیں سبھی طرف
باصر سلطان کاظمی