بادہ خانے کی روایت کو نبھانا چاہئے
جام اگر خالی بھی ہو گردش میں آنا چاہئے
آج آنا ہے انہیں لیکن نہ آنا چاہئے
وعدۂ فردا اصولاً بھول جانا چاہئے
ترک کرنا چاہئے ہرگز نہ رسم انتظار
منتظر کو عمر بھر شمعیں جلانا چاہئے
جذب کر لیتے ہیں اچھی صورتوں کو آئنہ
آئنوں سے کیا تمہیں آنکھیں ملانا چاہئے
میرے اس کے بیچ جو حالات کی دیوار ہے
مجھ کو اس دیوار میں اک در بنانا چاہئے
پھر کرم آگیں تبسم میں ہے پوشیدہ ستم
ہوش مندوں کو پہیلی بوجھ جانا چاہئے
گردش حالات سے مایوس ہونا کفر ہے
عمر بھر انساں کو قسمت آزمانا چاہئے
میری غزلیں ہوں گی کل نا محرموں کے درمیاں
اس کی خوشبو میری غزلوں میں نہ آنا چاہئے
ہم تو قائل ہی نہیں محدود الفت کے علیمؔ
ہم کو الفت کے لئے سارا زمانہ چاہئے
غزل
بادہ خانے کی روایت کو نبھانا چاہئے
علیم عثمانی