بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں
کیفیت کے ہم نے جو دیکھا دو ہیں مہینے ساون بھادوں
دیکھے نہ ہوں گے آج تلک یہ ایسے کسی نے ساون بھادوں
چشم کی دولت ہم کو رہے ہیں بارہ مہینے ساون بھادوں
چھوٹے ہیں فوارۂ مژگاں روز و شب ان آنکھوں سے
یوں نہ برستے دیکھے ہوں گے مل کے کسی نے ساون بھادوں
ٹانکنے کو پھرتی ہے بجلی اس میں گوٹ تمامی کی
دامن ابر کے ٹکڑوں کو جب لگتے ہیں سینے ساون بھادوں
بھولے دم کی آمد و شد ہم یاد کر اس جھولے کی پینگیں
سوجھے ہے بے یار نہ دیں گے آہ یہ جینے ساون بھادوں
کیونکہ نہ یہ در ہائے تگرگ اے بادہ پرستو! برسائیں
کان گہر چھٹ زر کے نہیں رکھتے گنجینے ساون بھادوں
کان جواہر کیونکہ نہ سمجھے کھیت کو دہقاں اولوں سے
برساتے ہیں موتیوں میں ہیروں کے نگینے ساون بھادوں
ابر سیہ میں دیکھی تھی بگلوں کی قطار اس شکل سے ہم نے
یاد دلائے پھر کے ترے دندان و مسی نے ساون بھادوں
کھیت رکھے گی آخر اک دن فرقت دہقاں پسر کی نصیرؔ
کرتے ہیں جوں گندم شق مغلوں کے سینے ساون بھادوں
غزل
بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں
شاہ نصیر