بعد مدت کے یہ ہوا معلوم
جو ہے معلوم وہ ہے نا معلوم
کس نے کھوئے ہیں ہوش کیا معلوم
کون کافر ہے یہ خدا معلوم
ہم کو منزل کی ہے تلاش بہت
گو نہیں اس کا راستا معلوم
دل میں اک درد کی کسک سی تھی
اب ہوئی اس کی انتہا معلوم
جستجوئے ہزار کے با وصف
کچھ ہوا کچھ نہیں ہوا معلوم
راز کونین اسی پہ فاش نہیں
جس نے سمجھا کہ ہو گیا معلوم
اس کو قدرت نے دی گراں گوشی
جس کو ہے ساز کی صدا معلوم
درد سے واسطہ ہے درد سے کام
گو ہے اس درد کی دوا معلوم
عرشؔ وہ مجھ کو چھوڑتے ہی نہیں
اب ہوئی جرم کی سزا معلوم
غزل
بعد مدت کے یہ ہوا معلوم
عرش ملسیانی