بعد مدت کے مرے آنکھ سے آنسو نکلے
خشک صحرا میں جو پانی گرے خوشبو نکلے
اشک سوکھے ہوئے گالوں پہ کجی سے نکلے
رقص کرتے ہوئے صحراؤں میں آہو نکلے
تیرے دیوانے کے دیوانوں کے دیوانے ہیں
تیری کیا بات کریں باتوں سے خوشبو نکلے
تیرے میخانے میں جو آج اچھالا ساغر
ایک قطرے کے مرے سیکڑوں پہلو نکلے
ساقیا تو نے جو کل دی تھی مجھے کم دی تھی
آج نکلے تو فقط لے کے ترازو نکلے
نیند سے چور زمانے کی درخشاں ہو حیات
گھر سے انگڑائیاں لیتا ہوا گر تو نکلے

غزل
بعد مدت کے مرے آنکھ سے آنسو نکلے
سرور نیپالی