باد صرصر ہے نسیم گلستاں میرے لیے
بن گیا کنج قفس اب آشیاں میرے لیے
زاہدو تم کو مبارک خانۂ کعبہ رہے
کافی ہے سجدے کو سنگ آستاں میرے لیے
ساغر و مینا سبو و جام کا اب ذکر کیا
دشمن جاں ہو گیا پیر مغاں میرے لیے
واہ رے گردون گرداں تیرا شوق انتظام
ہو گئی ہے زندگی بار گراں میرے لیے
درد دل کہنے کو آیا ہوں سراپا درد ہوں
ہو عطا کچھ وقت بہر داستاں میرے لیے
حسرت سوزاں سے تکتی ہے اسے برق تپاں
شاخ گلشن پر بنا جو آشیاں میرے لیے

غزل
باد صرصر ہے نسیم گلستاں میرے لیے
حکیم محمد حسین احقرؔ