EN हिंदी
بعد مکیں مکاں کا گر بام رہا تو کیا ہوا | شیح شیری
baad-e-makin makan ka gar baam raha to kya hua

غزل

بعد مکیں مکاں کا گر بام رہا تو کیا ہوا

غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی

;

بعد مکیں مکاں کا گر بام رہا تو کیا ہوا
آپ ہی جب رہے نہیں نام رہا تو کیا ہوا

چشم سے کیا ہے فائدہ دل میں نہ ہو جو ذوق دید
شیشے میں مے نہ جب رہے جام رہا تو کیا ہوا

ہم سے غریب بھی بھلا مجرے کے باریاب ہوں
اذن تیرا کبھی کبھی عام رہا تو کیا ہوا

غیر وفا میں پختہ ہیں یوں ہی سہی پہ مجھ سا بھی
ایک تری جناب میں خام رہا تو کیا ہوا

رم تو ترا سبھوں سے ہے اے بت من ہرن بھلا
اپنے حضورؔ سے کبھی رام رہا تو کیا ہوا