EN हिंदी
باب حیرت سے مجھے اذن سفر ہونے کو ہے | شیح شیری
bab-e-hairat se mujhe izn-e-safar hone ko hai

غزل

باب حیرت سے مجھے اذن سفر ہونے کو ہے

پروین شاکر

;

باب حیرت سے مجھے اذن سفر ہونے کو ہے
تہنیت اے دل کہ اب دیوار در ہونے کو ہے

کھول دیں زنجیر در اور حوض کو خالی کریں
زندگی کے باغ میں اب سہ پہر ہونے کو ہے

موت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے دل میں کیوں
کیا محبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے

گرد رہ بن کر کوئی حاصل سفر کا ہو گیا
خاک میں مل کر کوئی لعل و گہر ہونے کو ہے

اک چمک سی تو نظر آئی ہے اپنی خاک میں
مجھ پہ بھی شاید توجہ کی نظر ہونے کو ہے

گمشدہ بستی مسافر لوٹ کر آتے نہیں
معجزہ ایسا مگر بار دگر ہونے کو ہے

رونق بازار و محفل کم نہیں ہے آج بھی
سانحہ اس شہر میں کوئی مگر ہونے کو ہے

گھر کا سارا راستہ اس سر خوشی میں کٹ گیا
اس سے اگلے موڑ کوئی ہم سفر ہونے کو ہے