با خبر تھا اک نظر میں دو جہاں لے جائے گا
میری جاں بن کر وہ اک دن میری جاں لے جائے گا
آخری ہچکی سے پہلے چارہ گر سے پوچھ لوں
جو نظر آتا نہیں رشتہ کہاں لے جائے گا
مے کدہ دیر و حرم یا کوئی دوانوں کہ بزم
تجھ سے یے بچھڑا ہوا لمحہ کہاں لے جائے گا
وہ جو پچھلے سال سب کھیتوں کو سونا دے گیا
اب کے وہ طوفان کس کس کا مکاں لے جائے گا
وہ چلا جائے گا مجھ سے کر کے اقرار وفا
توڑ جائے گا سفینہ بادباں لے جائے گا
عشق میں اس نے جلانا ہی نہیں سیکھا کبھی
آگ دے جائے گا مجھ کو خود دھواں لے جائے گا

غزل
با خبر تھا اک نظر میں دو جہاں لے جائے گا
قمر جلال آبادی