با ہمہ یورش آلام و ستم زندہ ہوں میں
مصحف وقت کا اک باب درخشندہ ہوں میں
میرے سینے میں دھڑکتا ہے دل عصر رواں
اس زمانے کا مفسر ہوں نمائندہ ہوں میں
میں کہ حق تھا ہوا ہر دور میں مصلوب مگر
کل بھی پائندہ تھا میں آج بھی پائندہ ہوں میں
تو تمنائی ہے اک جنت موعودہ کا
اپنی گم کی ہوئی فردوس کا جوئندہ ہوں میں
میرے زخموں سے ہویدا ہے حنا بندی گل
اک نوید چمن آرائی آئندہ ہوں میں
مدح خوان شب تاریک مجھے کیا سمجھے
صبح گل ریز کے نغموں کا نویسندہ ہوں میں
یہ جہاں کیسے فراموش کرے گا مجھ کو
اس کے افلاک کا اک خاورؔ تابندہ ہوں میں

غزل
با ہمہ یورش آلام و ستم زندہ ہوں میں
خاور رضوی