EN हिंदी
بظاہر یوں تو میں سمٹا ہوا ہوں | شیح شیری
ba-zahir yun to main simTa hua hun

غزل

بظاہر یوں تو میں سمٹا ہوا ہوں

ظفر تابش

;

بظاہر یوں تو میں سمٹا ہوا ہوں
اگر سوچو تو پھر بکھرا ہوا ہوں

مجھے دیکھو تصور کی نظر سے
تمہاری ذات میں اترا ہوا ہوں

سنا دے پھر کوئی جھوٹی کہانی
میں پچھلی رات کا جاگا ہوا ہوں

کبھی بہتا ہوا دریا کبھی میں
سلگتی ریت کا صحرا ہوا ہوں

جب اپنی عمر کے لوگوں میں بیٹھوں
یہ لگتا ہے کہ میں بوڑھا ہوا ہوں

کہاں لے جائے گی تابشؔ نہ جانے
ہوا کے دوش پر ٹھہرا ہوا ہوں