بہ ظاہر یہ وہی ملنے بچھڑنے کی حکایت ہے
یہاں لیکن گھروں کے بھی اجڑنے کی حکایت ہے
سپہ سالار کچھ لکھتا ہے تصویر ہزیمت میں
مگر یہ تو عدو کے پاؤں پڑنے کی حکایت ہے
کنیز بے نوا نے ایک شہزادے کو چاہا کیوں
محبت زندہ دیواروں میں گڑنے کی حکایت ہے
کھلی آنکھیں تو کاندھوں پر کتابوں سے بھرا بستہ
لڑکپن اب کہاں تتلی پکڑنے کی حکایت ہے
کئی صدیاں گنوا دیں ہم نے کم کوشی کی راحت میں
بہت ہی دکھ بھری اپنے بچھڑنے کی حکایت ہے
پرائی خاک نے ان پر کہیں بانہیں نہ پھیلائیں
یہ ہجرت کا سفر جڑ سے اکھڑنے کی حکایت ہے
قدم کب تک جمے رہتے مرے سیلاب کی زد میں
مری بے چارگی تنکے پکڑنے کی حکایت ہے
غزل
بہ ظاہر یہ وہی ملنے بچھڑنے کی حکایت ہے
ارمان نجمی