بظاہر یہ جو بیگانے بہت ہیں
ہمارے جانے پہچانے بہت ہیں
خرد مندو مبارک عزم افلاک
زمیں پر چند دیوانے بہت ہیں
شبستانوں سے تم نکلو تو دیکھو
بھرے شہروں میں ویرانے بہت ہیں
تمہارا مے کدہ تم کو مبارک
ہمیں یادوں کے پیمانے بہت ہیں
گلا کیا غیر کی بیگانگی کا
کہ جو اپنے ہیں بیگانے بہت ہیں
نظام زیست کا محور محبت
حقیقت ایک افسانے بہت ہیں
غزل
بظاہر یہ جو بیگانے بہت ہیں
پروین فنا سید