EN हिंदी
بظاہر تو تناور دکھ رہے ہیں | شیح شیری
ba-zahir to tanawar dikh rahe hain

غزل

بظاہر تو تناور دکھ رہے ہیں

نواز عصیمی

;

بظاہر تو تناور دکھ رہے ہیں
مگر یے پیڑ سارے کھوکھلے ہیں

یہ کس شمع کی چاہت میں پتنگے
برہنہ پاؤں سورج پر کھڑے ہیں

غزل کتنی اپاہج ہو گئی ہے
غزل کے دست و بازو کہہ رہے ہیں

دراریں جسم کی کھلنے لگی ہیں
لہو کے قطرے بر آمد ہوئے ہیں

ہر اک جانب ہے تاریکی کا جنگل
اجالے راستہ بھٹکے ہوئے ہیں

نوازؔ اس کی گلی کے سارے پتھر
مجھے اچھی طرح پہچانتے ہیں