بظاہر جو نظر آتے ہو تم مسرور ایسا کیسے کرتے ہو
بتانا تو سہی ویرانئ دل کا نظارہ کیسے کرتے ہو
تمہاری اک ادا تو واقعی تعریف کے قابل ہے جان من
میں ششدر ہوں کہ اس کو پیار اتنا بے تحاشا کیسے کرتے ہو
سنا ہے لوگ دریا بند کر لیتے ہیں کوزے میں ہنر ہے یہ
مگر تم منصفی سے یہ کہو قطرے کو دجلہ کیسے کرتے ہو
ہماری بات پر وہ کان دھرتا ہی نہیں ہے ٹال جاتا ہے
تمہیں کیا کیا نہیں حاصل کہو عرض تمنا کیسے کرتے ہو
تعجب ہے تعلق یاد رکھنا اور پھر آرام سے سونا
اگر اس کو بھلا پائے نہیں اب تک سویرا کیسے کرتے ہو
تمہاری آہ کا یہ کون سا انداز ہے واضح نہیں ہوتا
معمہ یہ نہیں کھلتا کہ تم دریا کو صحرا کیسے کرتے ہو
غزل
بظاہر جو نظر آتے ہو تم مسرور ایسا کیسے کرتے ہو
سراج اجملی