بہ وقت شام امیدوں کا ڈھل گیا سورج
حد نگاہ سے آگے نکل گیا سورج
یہ شرق و غرب ہماری نظر کے ہیں آفاق
نظر جو بدلی تو کتنا بدل گیا سورج
ٹھٹھرتی رات کے پہلو میں آ کے بیٹھا تھا
مرے نفس سے ملا اور جل گیا سورج
عجیب کرب ہے دل کے ہر اک گوشے میں
مرے وجود میں گویا پگھل گیا سورج
ہوس کے شوق میں اترا تمازتیں لے کر
زمیں کی گود میں شعلے اگل گیا سورج

غزل
بہ وقت شام امیدوں کا ڈھل گیا سورج
قمر عباس قمر