بہ سطح آب کوئی عکس ناتواں نہ پڑا
ہوا گزر بھی گئی اور کہیں نشاں نہ پڑا
بڑے سکون سے دیکھا ہے جلتے لمحوں کو
ہماری آنکھ میں ورنہ دھواں کہاں نہ پڑا
کٹھن بھی ایسا نہ تھا میری تیری صلح کا کام
کوئی بھی شخص مرے تیرے درمیاں نہ پڑا
ہوئے ہیں خاک خموشی کے دشت میں کھو کر
ہمارے کان میں ہی شور کارواں نہ پڑا
بلا کی دھوپ ہے جعفرؔ کسی کو ہوش نہیں
پڑا ہے ابر کا سایا کہاں کہاں نہ پڑا

غزل
بہ سطح آب کوئی عکس ناتواں نہ پڑا
جعفر شیرازی