بہ صد آرزو جو وہ آیا تو یہ حجاب عشق سے حال تھا
کہ ہزاروں دل میں تھیں حسرتیں اور اٹھانا آنکھ محال تھا
رہا شب جو ہم سے جدا کوئی تو کہے یہ واقعہ کیا کوئی
شب ہجر تھی کہ بلا کوئی جسے دیکھتے ہی وصال تھا
رخ یار تا نہ پڑا نظر رہے ہم الم سے یہ نوحہ گر
کہ ہمارے رنج و ملال پر تو ملال کو بھی ملال تھا
کرے کون اس سے برابری مہ و زہرہ سب کو تھی ہم سری
دم صبح دیکھ ستم گری رخ مہر ذرہ مثال تھا
شب وصل دیکھ کے خواب میں میں پڑا تھا سخت عذاب میں
تھے ہزار سوچ جواب میں عجب اس کا مجھ سے سوال تھا
مرے جوش اشک سے بہرہ ور ہوئے کل جہان کے بحر و بر
نہ برستی آج یہ چشم تر تو خدا نخواستہ کال تھا
جو نمود کرتے ہی آپ سے لگے بیٹھنے وہ شتاب سے
تو یہ پوچھے کوئی حباب سے کہ پھلائے اپنے یہ گال تھا
ہوا میں بھی داخل کشتگاں تو عبث تو ہووے ہے سر گراں
کہ مرے گلے کی طرف میاں ترے آب تیغ کا ڈھال تھا
دیا کھا کے آپ نے پان جو دل مبتلا ہوا سرخ رو
اسے سمجھا پیٹ کا بوجھ وہ جو تمہارے منہ کا اگال تھا
جو مریض تھا پڑا جاں بہ لب خبر اور کچھ نہیں اس کی اب
مگر اتنا کہتے ہیں لوگ سب کہ بڑا یہ نیک خصال تھا
جو چمن سے دور قفس ہوا تو میں اور اسیر ہوس ہوا
یہ جو ظلم اب کے برس ہوا یہی قہر اگلے بھی سال تھا
نہیں چاہتا ہے اب آسماں کہ ہم اور وہ ہوں بہ یک مکاں
کہیں آ گیا جو وہ شب کو یاں کہ بلانا جس کا محال تھا
تو یہ رنگ چنبر چرخ کا نظر آئے تھا مجھے برملا
کبھی تھا سیہ کبھی زرد تھا کبھی سبز تھا کبھی لال تھا
نہ کسی نے قدر کی جرأتؔ اب کہے شعر گرچہ عجب عجب
جو نہ ہوں گے ہم تو کہیں گے سب کہ بڑا یہ اہل کمال تھا
غزل
بہ صد آرزو جو وہ آیا تو یہ حجاب عشق سے حال تھا
جرأت قلندر بخش