بروز حشر مرے ساتھ دل لگی ہی تو ہے
کہ جیسے بات کوئی آپ سے چھپی ہی تو ہے
نہ چھیڑو بادہ کشو مے کدے میں واعظ کو
بہک کے آ گیا بیچارہ آدمی ہی تو ہے
قصور ہو گیا قدموں پہ لوٹ جانے کا
برا نہ مانیئ سرکار بے خودی ہی تو ہے
ریاض خلد کا اتنا بڑھا چڑھا کے بیاں
کہ جیسے وہ مرے محبوب کی گلی ہی تو ہے
یقیں مجھے بھی ہے وہ آئیں گے ضرور مگر
وفا کرے گی کہاں تک کہ زندگی ہی تو ہے
مرے بغیر اندھیرا تمہیں ستائے گا
سحر کو شام بنا دے گی عاشقی ہی تو ہے
بہ چشم نم تری درگاہ سے گیا فاروقؔ
خطا معاف کہ یہ بندہ پروری ہی تو ہے
غزل
بروز حشر مرے ساتھ دل لگی ہی تو ہے
فاروق بانسپاری