برنگ نکہت گل ہے چمن میں آشیاں اپنا
کسی کے راز داں ہم ہیں نہ کوئی رازداں اپنا
چلے تو جا رہے ہیں کیا بتائیں کل کہاں ہوں گے
خدا معلوم کس منزل پہ ٹھہرے کارواں اپنا
یہی اچھا ہوا محفل میں تیری چپ رہے ورنہ
غم دل کی کہانی اور پھر طرز بیاں اپنا
سپرد عشق ہم تو کر چکے سرمایۂ ہستی
جو اہل ہوش ہیں سوچا کریں سود و زیاں اپنا
ہوا ہی چاہتی ہے شام بھی اب صبح پیری کی
مگر اب تک تو ہے پہلو میں قیصرؔ دل جواں اپنا
غزل
برنگ نکہت گل ہے چمن میں آشیاں اپنا
قیصر امراوتوی