بہ راہ راست نہیں پھر بھی رابطہ سا ہے
وہ جیسے یاد مضافات میں چھپا سا ہے
کبھی تلاش کیا تو وہیں ملا ہے وہ
نفس کی آمد و شد میں جہاں خلا سا ہے
یہ تارے کس لیے آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں
ہمیں تو جاگتے رہنے کا عارضہ سا ہے
یہ کائنات اگر ویسی ہو تو کیا ہوگا
ہمارے ذہن میں خاکہ جو اک بنا سا ہے
زمیں مدار پہ رقصاں ہے صبح و شام مدام
کرے کے چار طرف اک محاصرہ سا ہے

غزل
بہ راہ راست نہیں پھر بھی رابطہ سا ہے
شہرام سرمدی