بجز متاع دل لخت لخت کچھ بھی نہیں
مری نگاہ میں تدبیر و بخت کچھ بھی نہیں
گزرتے وقت کی صورت حریف بھی نہ رہے
بری نگاہ نہ لہجے کرخت کچھ بھی نہیں
مسافتوں کی گھنی دھوپ میں ہیں تنہا ہم
ہماری راہ میں سائے درخت کچھ بھی نہیں
میں نقش و رنگ کی دنیا لٹا کے آیا ہوں
مری نگاہ میں اب تاج و تخت کچھ بھی نہیں
ہمیں رئیسؔ جو لوٹے تو کوئی کیا لوٹے
ہمارے پاس تو اب ساز و رخت کچھ بھی نہیں

غزل
بجز متاع دل لخت لخت کچھ بھی نہیں
رئیس الدین رئیس