بجز خیال غم محبت کوئی مرا ہم سفر نہیں ہے
میں اب وہاں سے گزر رہا ہوں جہاں کسی کا گزر نہیں ہے
الم بھی کب ساتھ چھوڑ جائے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
بہار تو پھر بہار ٹھہری خزاں بھی اب معتبر نہیں ہے
فضائیں نکہت میں ڈھل رہی ہیں وفا کا اقرار ہو رہا ہے
خود اپنے جلووں میں وہ بھی گم ہیں ہمیں بھی اپنی خبر نہیں ہے
مجھے حقیقت سے واسطہ ہے نقیب فطرت ہوں میں ازل سے
خزاں کو فصل بہار کہہ دوں یہ میرا ظرف نظر نہیں ہے

غزل
بجز خیال غم محبت کوئی مرا ہم سفر نہیں ہے
گوہر عثمانی