بہ ہر صورت محبت کا یہی انجام دیکھا ہے
کہ جاں دے کر بھی انساں کو یہاں ناکام دیکھا ہے
جہاں پہنچی ہیں پردے چاک کر کے عشق کی نظریں
کہاں تو نے وہ منظر اے نگاہ عام دیکھا ہے
نگاہ یار کو برہم کیا ہے میں نے خود اکثر
کبھی جو درد کو دل کے ذرا آرام دیکھا ہے
لبوں تک میرے بڑھ کے خود ہی آ پہنچا ہے اے ساقی
نظر بھر کر کبھی میں نے جو سوئے جام دیکھا ہے
کیا ہے منکر و سرکش کو بھی سیراب دنیا میں
ترے ابر کرم نے کس کو تشنہ کام دیکھا ہے
دل و جاں کر دیئے نذر نگاہ ناز بس میں نے
نہ کچھ آغاز دیکھا ہے نہ کچھ انجام دیکھا ہے
مریض غم کی حالت دیکھنے والے یہ کہتے ہیں
کہ بے ہوشی میں بھی لب پر تمہارا نام دیکھا ہے
یہ اپنی مختصر ہے اشکؔ روداد رہ الفت
کہ بس ناکامیوں کو ساتھ ہر ہر گام دیکھا ہے

غزل
بہ ہر صورت محبت کا یہی انجام دیکھا ہے
سید محمد ظفر اشک سنبھلی