EN हिंदी
بہ چمن اب وہ کیا چاہے ہے مے نوش گزار | شیح شیری
ba-chaman ab wo kiya chahe hai mai-nosh guzar

غزل

بہ چمن اب وہ کیا چاہے ہے مے نوش گزار

جرأت قلندر بخش

;

بہ چمن اب وہ کیا چاہے ہے مے نوش گزار
جلد اے پیک صبا گل کے یہ کر گوش گزار

نہیں معلوم کہاں جاتے ہیں جوں نشۂ مے
جدھر ان روزوں میں ہم کرتے ہیں مدہوش گزار

بزم میں مجھ کو جو دیکھا تو یہ جھنجھلا کے کہا
ایسی محفل میں کرے ہے مری پاپوش گزار

سرنگوں کوچۂ رسوائی میں ہیں آج تلک
سو خرابی سے جو اس در پہ کیا دوش گزار

عاشق اس پردہ نشیں کے ہیں کہ گر سامنے سے
کبھی گزرے ہے تو کرتا ہے وہ روپوش گزار

چند روزہ ہے یہ مے خانۂ ہستی یاں تو
عمر غفلت میں نہ اے بے خرد و ہوش گزار

آ پھنسا عشوہ و انداز و ادا میں یوں دل
رہزنوں میں کرے جوں راہ فراموش گزار

ہم سفر ہیں تو یہ حسرت ہے کہ کیجے کوسوں
اک سواری میں ہوئے اس سے ہم آغوش گزار

قدرداں کوئی سخن کا نہ رہا اے جرأتؔ
کنج تنہائی میں اوقات تو خاموش گزار