عزم فریاد! انہیں اے دل ناشاد نہیں
مسلک اہل وفا ضبط ہے فریاد نہیں
حاصل عشق بجز خاطر ناشاد نہیں
یہ غنیمت ہے کہ محنت مری برباد نہیں
اے مری قید تمنا کے بڑھانے والے
غیر محدود ترے حسن کی میعاد نہیں
بزم افسانہ کرو ختم جوانی گزری
قابل ذکر اب آگے کوئی روداد نہیں
موت ہے روح کی معراج تو پھر اے سیمابؔ
یہ علو ہے مری دانست میں افتاد نہیں
غزل
عزم فریاد! انہیں اے دل ناشاد نہیں
سیماب اکبرآبادی