عزیزو تم نہ کچھ اس کو کہو ہوا سو ہوا
نپٹ ہی تند ہے ظالم کی خو ہوا سو ہوا
خطا سے اس کی نہیں نام کو غبار ملال
میں رو رو ڈالا ہے سب دل سے دھو ہوا سو ہوا
مری خطا یا جفا تھی تری یہ کیا ہے ذکر
ہوا جو چاہیئے پھر تو نہ ہو ہوا سو ہوا
ہنسے ہے دل میں یہ نا دردمند سب سن سن
تو دکھ کو عشق کے اے دل نہ رو ہوا سو ہوا
ستم گرو جو تمہیں رحم کی ہو کچھ توفیق
ستم کی اپنے تلافی کرو ہوا سو ہوا
تو کون ہے کہ ہو ملنے سے غیر کے مانع
دل اس کو ہاتھ سے اپنے نہ کھو ہوا سو ہوا
نہ سرگزشت مری پوچھ مجھ سے کچھ اے بخت
تو اپنے خواب فراغت میں سو ہوا سو ہوا
محبت ایک طرح کی نری سماجت ہے
میں چھوڑوں ہوں تری اب جستجو ہوا سو ہوا
بیان حال سے رکتا ہے حسرتؔ اب یارو
نہ پوچھو اس سے نہ کچھ تم کہو ہوا سو ہوا
غزل
عزیزو تم نہ کچھ اس کو کہو ہوا سو ہوا
حسرتؔ عظیم آبادی