ازدواجی زندگی بھی اور تجارت بھی ادب بھی
کتنا کار آمد ہے سب کچھ اور کیسا بے سبب بھی
جس کے ایک اک حرف شیریں کا اثر ہے زہر آگیں
کیا حکایت لکھ گئے میرے لبوں پر اس کے لب بھی
عمر بھر تار نفس اک ہجر ہی کا سلسلہ ہے
وہ نہ مل پائے اگر تو اور اگر مل جائے تب بھی
لوگ اچھے زندگی پیاری ہے دنیا خوب صورت
آہ کیسی خوش کلامی کر رہی ہے روح شب بھی
لفظ پر مفہوم اس لمحے کچھ ایسا ملتفت ہے
جیسے از خود ہو عنایت بوسۂ لب بے طلب بھی
ناتواں کم ظرف عصیاں کار جاہل اور کیا کیا
پیار سے مجھ کو بلاتا ہے وہ میرا خوش لقب بھی
ہم بھی ہیں پابندئ اظہار سے بیزار لیکن
کچھ سلیقہ تو سخن کا ہو ہنر کا کوئی ڈھب بھی
نام نسبت ملکیت کچھ بھی نہیں باقی اگرچہ
سازؔ اس کوچے میں میرا گھر ہوا کرتا ہے اب بھی
غزل
ازدواجی زندگی بھی اور تجارت بھی ادب بھی
عبد الاحد ساز