EN हिंदी
ازل سے بند دروازہ کھلا تو | شیح شیری
azal se band darwaza khula to

غزل

ازل سے بند دروازہ کھلا تو

وکاس شرما راز

;

ازل سے بند دروازہ کھلا تو
میں اپنی ذات میں داخل ہوا تو

مخالف ہو گئے مرکز کے لیکن
اگر ٹوٹا نہ ہم سے دائرہ تو

ستاتا ہے مجھے یہ ڈر برابر
میں اپنے آپ سے اکتا گیا تو

سمندر اوڑھ کر سو جائیں گے ہم
یہ غوطہ بھی اگر خالی گیا تو

جدائی لفظ سن کر کانپ اٹھے
اگر یہ زہر پینا پڑ گیا تو

میں کوہ شب کی چوٹی پر کھڑا ہوں
اب اگلا پاؤں غفلت میں پڑا تو