ازل سے بند دروازہ کھلا تو
میں اپنی ذات میں داخل ہوا تو
مخالف ہو گئے مرکز کے لیکن
اگر ٹوٹا نہ ہم سے دائرہ تو
ستاتا ہے مجھے یہ ڈر برابر
میں اپنے آپ سے اکتا گیا تو
سمندر اوڑھ کر سو جائیں گے ہم
یہ غوطہ بھی اگر خالی گیا تو
جدائی لفظ سن کر کانپ اٹھے
اگر یہ زہر پینا پڑ گیا تو
میں کوہ شب کی چوٹی پر کھڑا ہوں
اب اگلا پاؤں غفلت میں پڑا تو
غزل
ازل سے بند دروازہ کھلا تو
وکاس شرما راز