عذاب ہو گئی زنجیر دست و پا مجھ کو
جو ہو سکے تو کہیں دار پہ چڑھا مجھ کو
ترس گیا ہوں میں سورج کی روشنی کے لیے
وہ دی ہے سایۂ دیوار نے سزا مجھ کو
جو دیکھے تو اسی سے ہے زندگی میرے
مگر مٹا بھی رہی ہے یہی ہوا مجھ کو
اسی نظر نے مجھے توڑ کر بکھیر دیا
اسی نظر نے بنایا تھا آئینہ مجھ کو
سراب عمر تمنا کی تشنگی ہوں میں
اگر ہے چشمۂ فیاض تو بجھا مجھ کو
کبھی تو اپنے بدن کے چراغ روشن کر
کبھی تو اپنے لہو سے بھی آزما مجھ کو

غزل
عذاب ہو گئی زنجیر دست و پا مجھ کو
مغنی تبسم