عذاب ہجر بھی ہے راحت وصال کے ساتھ
ملی تو ہیں مجھے خوشیاں مگر ملال کے ساتھ
تمہاری یاد میں بھی ضبط و اعتدال کہاں
میں تم سے کیسے ملوں ضبط و اعتدال کے ساتھ
یہی بہت ہے زمانہ میں چار دن کے لئے
اگر حیات کٹے ایک ہم خیال کے ساتھ
کچھ اس طرح شب مہ نے کرن کی دستک دی
ابھر گئیں کئی چوٹیں کسی خیال کے ساتھ
افق نہیں تو کسی چاند کا تصور کیا
ستارے ڈوب گئے درد کے زوال کے ساتھ
شفق گلال کلی چاندنی الاپ سحر
نظر کے سامنے آئے تری مثال کے ساتھ
بھٹک رہا ہوں کہ فردا کا راستہ گم ہے
قدم قدم مرا ماضی ہے میرے حال کے ساتھ
اسے سنوں کہ اسے دیکھتا رہوں اے شاذؔ
جمال نغمہ بھی ہے نغمہ جمال کے ساتھ
غزل
عذاب ہجر بھی ہے راحت وصال کے ساتھ
شاذ تمکنت