عذاب حسرت و آلام سے نکل جاؤ
مری سحر سے مری شام سے نکل جاؤ
بہانہ چاہیے گھر سے کوئی نکلنے کو
کسی طلب میں کسی کام سے نکل جاؤ
ہمارے خانۂ دل میں رہو سکون کے ساتھ
نکلنا چاہو تو آرام سے نکل جاؤ
خدا نصیب کرے تم کو بے گھری کا مذاق
حصار شوق در و بام سے نکل جاؤ
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
کسی طرف بھی کسی کام سے نکل جاؤ
نکال پھینکو دلوں سے بتان بغض و عناد
نہیں تو حلقۂ اسلام سے نکل جاؤ
غزل
عذاب حسرت و آلام سے نکل جاؤ
ناز خیالوی