EN हिंदी
عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے | شیح شیری
azab-e-did mein aankhen lahu lahu kar ke

غزل

عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے

محسن نقوی

;

عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے

کھنڈر کی تہہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے

سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے
چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے

مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ہے چراغوں کی آبرو کر کے

زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر کے

جلوس اہل وفا کس کے در پہ پہنچا ہے
نشان‌ طوق وفا زینت گلو کر کے

اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تری دید سے وضو کر کے

کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسنؔ
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے