عیاں ہم پر نہ ہونے کی خوشی ہونے لگی ہے
دیے میں اک نئی سی روشنی ہونے لگی ہے
نئی کچھ حسرتیں دل میں بسیرا کر رہی ہیں
بہت آباد اب دل کی گلی ہونے لگی ہے
سو طے پایا مصائب زندگی کے کم نہ ہونگے
مگر کم زندگی سے زندگی ہونے لگی ہے
ادھر تار نفس سے آ ملی ہے رونق زیست
ادھر کم مہلتی میں بھی کمی ہونے لگی ہے
سر آغاز دل کی داستاں میں وہ نہیں تھا
مگر محسوس اب اس کی کمی ہونے لگی ہے
ہماری دوستی کا دم بھریں ایسے کہاں ہیں
زمانے سب سے تیری دوستی ہونے لگی ہے
غزل
عیاں ہم پر نہ ہونے کی خوشی ہونے لگی ہے
پیرزادہ قاسم