EN हिंदी
عیاں ہے بے رخی چتون سے اور غصہ نگاہوں سے | شیح شیری
ayan hai be-ruKHi chitwan se aur ghussa nigahon se

غزل

عیاں ہے بے رخی چتون سے اور غصہ نگاہوں سے

آرزو لکھنوی

;

عیاں ہے بے رخی چتون سے اور غصہ نگاہوں سے
پیام خامشی اور وہ بھی دو دو نشر گاہوں سے

وبال جاں ہے ایسی زندگی جس میں تلاطم ہو
مٹا لوں حوصلے پھر توبہ کر لوں گا گناہوں سے

فضا محدود کب ہے اے دل وحشی فلک کیسا
نلاہٹ ہے نظر کی دیکھتے ہیں جو نگاہوں سے

حقیقت میں نگاہوں سے کوئی منزل نہیں بچتی
گزرتے دیکھے ہیں گوشہ نشیں تک شاہراہوں سے

تہی دستان قسمت کو نہ لینا تھا نہ دینا تھا
حساب زندگی کیا ہے یہ پوچھو بادشاہوں سے

ہمیں تو جلتے دل کی روشنی میں آگے بڑھنا ہے
ہٹا دو قمقمے بجلی کے نا ہموار راہوں سے

مرے نالوں کے سب شاکی کوئی ان کو نہیں کہتا
کھرچتے رہتے ہیں جو زخم دل خونی نگاہوں سے

پلا دو زہر غم دل کو نہ چھوڑے گر ہوس کاری
گنہ وہ ایک اچھا جو بچا لے سو گناہوں سے

ہمیں کچھ آرزوؔ پھیر ان کی باتوں کا سمجھتے ہیں
جو حق پوشی میں سچ کو جھوٹ کرتے ہیں گواہوں سے