عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں
اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں
وہ مجھ سے ستاروں کا پتہ پوچھ رہا ہے
پتھر کی طرح جس کی انگوٹھی میں جڑی ہوں
الفاظ نہ آواز نہ ہم راز نہ دم ساز
یہ کیسے دوراہے پہ میں خاموش کھڑی ہوں
اس دشت بلا میں نہ سمجھ خود کو اکیلا
میں چوب کی صورت ترے خیمے میں گڑی ہوں
پھولوں پہ برستی ہوں کبھی صورت شبنم
بدلی ہوئی رت میں کبھی ساون کی جھڑی ہوں
غزل
عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں
فرحت زاہد