EN हिंदी
اور تو کچھ نہیں کیا ہوگا | شیح شیری
aur to kuchh nahin kiya hoga

غزل

اور تو کچھ نہیں کیا ہوگا

فیصل فہمی

;

اور تو کچھ نہیں کیا ہوگا
میں نے پھر موت کو جیا ہوگا

اس کے ساگر سے لب لگائے تھے
اس نے اک گھونٹ تو پیا ہوگا

آج بلبل نے اس چنبیلی سے
جانے کیا کان میں کہا ہوگا

ایک باقی چراغ تھا اچھا
اس کو تم نے بجھا دیا ہوگا

کچھ دنوں قبل تک نیا تھا میں
اب جو ہے آج کل نیا ہوگا