اور تو خیر کیا رہ گیا
ہاں مگر اک خلا رہ گیا
غم سبھی دل سے رخصت ہوئے
درد بے انتہا رہ گیا
زخم سب مندمل ہو گئے
اک دریچہ کھلا رہ گیا
رنگ جانے کہاں اڑ گئے
صرف اک داغ سا رہ گیا
آرزوؤں کا مرکز تھا دل
حسرتوں میں گھرا رہ گیا
رہ گیا دل میں اک درد سا
دل میں اک درد سا رہ گیا
زندگی سے تعلق مرا
ٹوٹ کر بھی جڑا رہ گیا
ہم بھی آخر پشیماں ہوئے
آپ کو بھی گلا رہ گیا
کوئی مہمان آیا نہیں
گھر ہمارا سجا رہ گیا
اس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا
جام کیا کیا نہ خالی ہوئے
درد سے دل بھرا رہ گیا
کس کو چھوڑا خزاں نے مگر
زخم دل کا ہرا رہ گیا
یہ بھی کچھ کم نہیں ہے کہ دل
گرد غم سے اٹا رہ گیا
کام اجملؔ بہت تھے ہمیں
ہاتھ دل پر دھرا رہ گیا
غزل
اور تو خیر کیا رہ گیا
اجمل سراج