EN हिंदी
اور تھوڑا سا بکھر جاؤں یہی ٹھانی ہے | شیح شیری
aur thoDa sa bikhar jaun yahi Thani hai

غزل

اور تھوڑا سا بکھر جاؤں یہی ٹھانی ہے

حسنین عاقب

;

اور تھوڑا سا بکھر جاؤں یہی ٹھانی ہے
زندگی میں نے ابھی ہار کہاں مانی ہے

ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو کچھ ملتا نہیں
دشت و صحرا کی میاں خاک کبھی چھانی ہے

قتل کو قتل جو کہتے ہیں غلط کہتے ہیں
کچھ نہیں ظل الٰہی کی یہ نادانی ہے

سہم جاتے ہیں اگر پتہ بھی کوئی کھڑکے
جانتے سب ہیں ترا ذمہ نگہبانی ہے

اپنی غیرت کا سمندر ابھی سوکھا تو نہیں
بوند بھر ہی سہی آنکھوں میں ابھی پانی ہے