اور سی دھوپ گھٹا اور سی رکھی ہوئی ہے
ہم نے اس گھر کی فضا اور سی رکھی ہوئی ہے
کچھ مرض اور سا ہم نے بھی لگایا ہوا ہے
اور اس نے بھی دوا اور سی رکھی ہوئی ہے
اس قدر شور میں بس ایک ہمیں ہیں خاموش
ہم نے ہونٹوں پہ صدا اور سی رکھی ہوئی ہے
وہ دعا اور ہے جو مانگ رہے ہیں کہ ابھی
دل میں اک اور دعا اور سی رکھی ہوئی ہے
قصہ اپنا بھی پرانا ہے سوائے اس کے
بس ذرا طرز ادا اور سی رکھی ہوئی ہے
غزل
اور سی دھوپ گھٹا اور سی رکھی ہوئی ہے
احمد صغیر صدیقی