اور سب کچھ بحال رکھا ہے
ایک بس عشق ٹال رکھا ہے
بس ترا ہوں یہ سوچ کر برسوں
میں نے اپنا خیال رکھا ہے
وہ بدن جادوئی پٹاری ہے
ہر کہیں اک کمال رکھا ہے
زندگی موت طے مری ہوگی
اس نے سکہ اچھال رکھا ہے
حال دل کیا اسے بتاؤں میں
اس نے سب دیکھ بھال رکھا ہے
ہجر پھیلا ہے پورے کمرے میں
پرس میں پر وصال رکھا ہے
اس سلیقے سے آشناؔ ٹوٹو
جیسے خود کو سنبھال رکھا ہے
غزل
اور سب کچھ بحال رکھا ہے
ونیت آشنا