اور کوئی بھی نہیں اپنا سہارا باقی
اب ہے سینے میں فقط درد تمہارا باقی
قریۂ جاں بھی ہے اور دعوت دیدار بھی ہے
آنکھ باقی نہیں لیکن ہے نظارہ باقی
باقی آثار ہیں بس قہر خدا کے ہر سو
کوئی طوفاں ہے نہ کشتی نہ کنارہ باقی
اس کے آنے کی ہے موہوم سی امید ابھی
آسماں پر ہے ابھی ایک ستارہ باقی
دل و جاں بھی نہیں دنیا بھی نہیں ہے اپنی
سوچتے ہیں کہ یہاں کیا ہے ہمارا باقی
جانے کس سمت ہوئے لوگ روانہ سارے
ایک میں شہر میں ہوں درد کا مارا باقی
غزل
اور کوئی بھی نہیں اپنا سہارا باقی
منور ہاشمی