اور کر لیں گے وہ کیا اب ہمیں رسوا کر کے
اب جو آئے ہیں تو جائیں گے تماشا کر کے
اپنی تخلیق کے اکمال سے سودا کر کے
کون اس پردے میں بیٹھا ہے تماشا کر کے
اک زمانہ ہے پریشان معمہ کیا ہے
تم تو غائب ہوئے کچھ کام ادھورا کر کے
تیرے جلوے کی ہوس ہم کو ہر اک رنگ میں ہے
سوئے بت خانہ چلے جاتے ہیں سجدہ کر کے
تاکہ سجدوں کی تڑپ میں نہ کمی آ پائے
اور سجدوں کے لیے نکلے ہیں سجدہ کر کے
اتنی رنگین جو دنیا ہے تری ہی تو ہے
کس طرح کفر کریں ہم یہاں توبہ کر کے
جس نے لٹتے ہوئے دیکھا ہے تمدن اپنا
اس سے کہتے ہو رہے تم پہ بھروسہ کر کے
ہم سے کیا پوچھو ہو احوال حرم اے لوگو
آج کے درد کا جاؤ تو مداوا کر کے
مانیؔ مے خانے کو مسجد سے چلے کہتے ہوئے
تھوڑی تبدیلی کو ہو آتے ہیں سجدہ کر کے
غزل
اور کر لیں گے وہ کیا اب ہمیں رسوا کر کے
سلیمان احمد مانی