EN हिंदी
اور جیتے رہیں کہ مر جائیں | شیح شیری
aur jite rahen ki mar jaen

غزل

اور جیتے رہیں کہ مر جائیں

عین سلام

;

اور جیتے رہیں کہ مر جائیں
بول اے زندگی کدھر جائیں

اب تو ہر سانس اس چمن میں ہے تنگ
صورت بوئے گل بکھر جائیں

یہ جنم تو ہمیں نہ راس آیا
شاید اگلے جنم سنور جائیں

کوئی گل گشت کو نہ آئے گا
کہو پھولوں سے اب بکھر جائیں

ان کی محفل سے اٹھ کے آ تو گئے
سوچتے ہیں کہ اب کدھر جائیں