اور جیتے رہیں کہ مر جائیں
بول اے زندگی کدھر جائیں
اب تو ہر سانس اس چمن میں ہے تنگ
صورت بوئے گل بکھر جائیں
یہ جنم تو ہمیں نہ راس آیا
شاید اگلے جنم سنور جائیں
کوئی گل گشت کو نہ آئے گا
کہو پھولوں سے اب بکھر جائیں
ان کی محفل سے اٹھ کے آ تو گئے
سوچتے ہیں کہ اب کدھر جائیں
غزل
اور جیتے رہیں کہ مر جائیں
عین سلام