اور اک شہر ہے کیا شہر گماں سے آگے
ہم کو جانا ہے بہت دور یہاں سے آگے
گردش پا کسی منزل پہ ٹھہرتی ہی نہیں
دل مگر بڑھتا نہیں کوئے بتاں سے آگے
گونجتی رہتی ہیں ساحل کی صدائیں ہر دم
ہم نے دیکھا ہی نہیں موج رواں سے آگے
مدعا اپنا کسی شخص پہ ظاہر نہ ہوا
کوئی جاتا ہی نہیں طرز بیاں سے آگے
زخم قائل ہوں بھلا چارہ گری کے کیسے
صف دشمن ہے صف چارہ گراں سے آگے
بے سبب ہم سے خفا ہو گئی دنیا عالمؔ
ہم نے لکھا ہے کہاں قصۂ جاں سے آگے
غزل
اور اک شہر ہے کیا شہر گماں سے آگے
عالم خورشید