EN हिंदी
اور اک شہر ہے کیا شہر گماں سے آگے | شیح شیری
aur ek shahr hai kya shahr-e-guman se aage

غزل

اور اک شہر ہے کیا شہر گماں سے آگے

عالم خورشید

;

اور اک شہر ہے کیا شہر گماں سے آگے
ہم کو جانا ہے بہت دور یہاں سے آگے

گردش پا کسی منزل پہ ٹھہرتی ہی نہیں
دل مگر بڑھتا نہیں کوئے بتاں سے آگے

گونجتی رہتی ہیں ساحل کی صدائیں ہر دم
ہم نے دیکھا ہی نہیں موج رواں سے آگے

مدعا اپنا کسی شخص پہ ظاہر نہ ہوا
کوئی جاتا ہی نہیں طرز بیاں سے آگے

زخم قائل ہوں بھلا چارہ گری کے کیسے
صف دشمن ہے صف چارہ گراں سے آگے

بے سبب ہم سے خفا ہو گئی دنیا عالمؔ
ہم نے لکھا ہے کہاں قصۂ جاں سے آگے