اور ہی کہیں ٹھہرے اور ہی کہیں پہنچے
جس جگہ پہنچنا تھا ہم وہاں نہیں پہنچے
ہجر کی مسافت میں ساتھ تو رہا ہر دم
دور ہو گئے تجھ سے جب ترے قریں پہنچے
طائر طلب کی ہے ہر اڑان اس در تک
نا مراد دل کا ہر راستہ وہیں پہنچے
رخ کرے ادھر کا ہی ہر عذاب دنیا کا
آسماں سے جو اترے وہ بلا یہیں پہنچے
ہر دل و نظر میں ہو اک نکھار سا پیدا
بد گمان ذہنوں تک نعمت یقیں پہنچے
غزل
اور ہی کہیں ٹھہرے اور ہی کہیں پہنچے
اکرام مجیب